دھ کے روز سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس واقعے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کل جو کچھ ہوا اس کے لیے پوری ریاست ذمہ دار ہے۔‘
مطیع اللہ جان کے بھائی شاہد عباسی نے گذشتہ روز اپنے بھائی کی بازیابی اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی کو بازیاب کرانے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ اگر مطیع اللہ کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا تو حکام بدھ کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔
یاد رہے کہ منگل کی صبح مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے علاقے سیکٹر جی سکس میں ان کی اہلیہ کے سکول کے باہر سے چند مسلح افراد نے اغوا کیا تھا تاہم اغوا کے 12 گھنٹے بعد وہ اپنے گھر واپس پہنچ گئے تھے۔
بدھ کو اس معاملے میں ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ دن دیہاڑے جس طرح صحافی کو اٹھایا گیا، کیا سب ادارے تباہ ہو چکے ہیں؟
یہ بھی پڑھیے
اُنھوں نے اسلام اباد پولیس کے حکام کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ پولیس کی وردی میں آ کر بندہ اٹھا لے؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ جائے وقوعہ پر پولیس کی وردی پہنے، پولیس کی گاڑی جیسے اشارے لگائے کون پھرتا رہا؟ اُنھوں نے کہا کہ متعقلہ حکام کو ان سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو اسلام آباد پولیس کہاں تھی، دارالحکومت میں ایسا کیسے ہو گیا؟ اُنھوں نے کہا کہ اس واقعہ سے متعلق میڈیا میں جو رپورٹ ہوا ہے اس کے مطابق مقامی پولیس کو تو اس واقعے کا علم ہی نہیں تھا
0 Comments
If you have any doubts tell me know